مجلس عزا 5 محرم الحرام 1443 جامعۃ الکوثر اسلام آباد
مجلس پنجم
نَتْلُو عَلَيْكَ مِن نَّبَإِ مُوسَىٰ وَفِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
ہم آپ کو موسیٰ اور فرعون کا واقعہ اہل ایمان کے لیے حقیقت کے مطابق سناتے ہیں۔
خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں ثقلین(قرآن و اہل بیت علیھم السلام) سے نوازا ہے۔ ہمارے برادران اہل سنت قرآن و سنتی کہتے ہیں۔درحقیقت لفظ سنتی ان کے کتابوں میں بھی نہیں ہے۔
گزشتہ مجالس میں داستاں موسی کا تذکرہ ہورہا تھا اور ہم وادی مقدس طوی میں پہنچ چکے تھے ۔
سوہ قصص کی آیات کی روشنی میں داستان موسی علیہ السلام بیاں ہو رہے تھے۔ آج ہم کچھ آیات سورہ طہ سے بیان کرنے کرینگے۔
آپ لوگون سے گزارش ہے کہ ان واقعات اور قصص کے بارئے میں مزید مطالعہ کیجئے اور تفاسیر کی طرف مراجعہ کریں۔
موسی کلیم اللہ ہے اللہ سے پہلی دفعہ کلام ہوا ہے اس بارے میں تین آیتین ہیں :
1۔ إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى
22- اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ :بیشک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے۔
تکبر اللہ کو ہی ججتے ہیں۔ جب موسی سے ہم کلام ہوا ۔۔۔۔۔اس کا مطلب آپ سے م
3- اِنَّنِیْۤ اَنَا اللّٰهُ:بیشک میں ہی اللہ ہوں
بے شک میں تمہارا رب ہے۔۔۔ میں تھجے اختیار کیا ہے ۔ اللہ اس تکرار کرنے سے تھکتا نہیں ہے۔ اِنَّنِیْۤ اَنَا اللّٰهُ:۔۔میں تمہارا رب ہوں ۔۔۔ لاالہ الا انا۔ فعبدہ۔۔(نہج البلاغہ خطبہ الاول)
واقیم الصلاۃ لزکری۔۔۔۔۔یہ سب ہم سے کہا جارہا ہے ۔ خدا بالکل آپ کے قریب آکے آپ سے ہم کلام ہے۔
موسیٰ کلیم اللہ سے ۔ اور اللہ موسی سے ہم کلام ہے۔ اور فرمایا۔۔ قیامت آنے والی ہے ۔۔لیکن کب انا ہے یہ نہیں بتایا ہے۔ تاکہ ہر انسان قیامت کے لئے امادہ ہو۔ اس لئے تاکہ انسان کی سعی اور کوشش کو دیکھا جائے۔ خدا آپ سے خالص نیت کے ساتھ کوشش مانگتے ہیں۔ اگر نیت خالصانہ ہو تو کوشش ہوتی ہے۔ جسطرح کوئی جوان نماز شب پڑھنے کی نیت کرے تو ساری رات فرشتے اس دورد و سلام بھتجے رہیں گے۔
مبداء اور معاد ، اگر آپ کو منزل مقصود کا پتہ نہ ہو تو زندگی کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ عبادت صرف خالق کی ہوتی ہے۔اقيم الصلاہ لزکری۔۔۔ اور موت کی وجہ سے انسان کی قیمت ہوتی ہے۔ موت کی وجہ سے ہم سب مجلس میں بیٹھے ہوے ہیں اس لئے کل قیامت کے دن جناب زہراء سلام اللہ علیھا آپ کو اجر دین گی۔ اگر رحمت خدا نہ ہو تو ان چیزوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ تو ہر انسان کی قیمت اس کا ہنر ہے۔ کائنات میں موجود کسی چیز کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے کیونکہ اس کی ایک منزل ہے اس پر پہنچ کر ختم ہونا ہے اور جو چیز ختم ہونے والی ہو اس کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ آپ کی قدر و قیمت آپ کی عمل ہے آپ کا عمل اہل بیت علیھم السلام سے محبت ہو تو آپ کی قیمت اہل بیت علیہم السلام کے برابر ہوگی۔
ان احادیث کو ہم سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔۔یا ہم نہیں سمجھتے ہیں۔۔
اگر آپ کسب علم کےلئے ایک لحضہ ذلت برداشت نہیں کریں گے تو زندگی بھر ذلالت نہیں ہوگی ۔ لھذا سمجھنے کی کوشش کرو۔۔۔۔)
ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ نے موسی سے ہم کلام کیا ۔اس کا مطلب کیا ہے؟
اس بارے میں تین مکتب فکر ہیں ۔
خشویہ، اشاعریہ، عدلیہ امامیہ
حشولیہ کہتے ہیں کی کلام صفات ذات خداوندی ہے۔ اگر کلام صفات ذاتیہ میں سے ہے تو بھر کلام خدا کا مطلب کیا ہے؟
حشویہ یہ کہتے ہیں کہ جس طرح ہم ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں اسی طرح خدا نے موسی سے گفتگو کی ہے۔ اگر خدا اس طرح گفتگو کرے کہ جیسا میں آپ سے کرہا ہوں (جس میں زبان، منہ، وغیرہ کے ساتھ ہے) خدا بھی اسی طرح گفتگو کرتا ہے۔
إِذَا تَكَلَّمَ اللَّهُ بِالْوَحْيِ ، سَمِعَ أَهْلُ السَّمَاءِ لِلسَّمَاءِ صَلْصَلَةً ، كَجَرِّ السِّلْسِلَةِ عَلَى الصَّفَا ، فَيُصْعَقُونَ ، فَلَا يَزَالُونَ كَذَلِكَ حَتَّى يَأْتِيَهُمْ جِبْرِيلُ ، حَتَّى إِذَا جَاءَهُمْ جِبْرِيلُ فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ
جب اللہ تعالیٰ وحی کے لیے کلام کرتا ہے تو سبھی آسمان والے آواز سنتے ہیں جیسے کسی چکنے پتھر پر زنجیر کھینچی جا رہی ہو، پھر وہ بیہوش کر دئیے جاتے ہیں اور اسی حال میں رہتے ہیں یہاں تک کہ ان کے پاس جبرائیل آتے ہیں، جب جبرائیل ان کے پاس آتے ہیں تو ان کی غشی جاتی رہتی ہے،
اسی ظرح حشویہ کہتے ہیں
كتب الله التوراة لموسى بيده وهو مسند ظهره إلى الصخرة يسمع صريف القلم في ألواح من زمرد ليس بينه وبينه إلا الحجاب
خدا ایک پتھر سے ٹیک لگایا ہوا تھا اور جب قلم چلا لوح زمرد پرتو اس کی آوازیں پورے عالم میں گونج رہی تھی۔۔ (نعوذ باللہ)
جبکہ اشاعریہ کہتے ہیں: کلام لفظی کو خدا کہ طرف نسبت نہیں دیتا بلکہ اس کو حل کرنے کے لئے وہ کلام نفسی کے قائل ہے یعنی خدا کا کلام ہے وہ صفت ذات ہے لیکن یہ کلام، کلام نفسی ہے لفظی نہیں ہے۔ جبکہ حقیقت میں اس کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ کلام یا زہن میں ہوگا یا لفظی ہوگا۔ اگرزہن میں ہے تو علم ہے اور زبان پر آگیا تو لفظ ہوگا۔ نفسی نامی کوئی کلام نہیں ہے۔
اما شیعہ: ہم یہ کہتے ہیں کہ کلام صفت فعل ہے۔ صفت ذات خدا نہیں ہے امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں
یُخْبِرُ لَا بِلِسَانٍ وَّ لَهَوَاتٍ، وَ یَسْمَعُ لَا بِخُرُوْقٍ وَّ اَدَوَاتٍ، یَقُوْلُ وَ لَا یَلْفِظُ، وَ یَحْفَظُ وَ لَا یَتَحَفَّظُ، وَ یُرِیْدُ وَ لَا یُضْمِرُ. یُحِبُّ وَ یَرْضٰی مِنْ غَیْرِ رِقَّةٍ، وَ یُبْغِضُ وَ یَغْضَبُ مِنْ غَیْرِ مَشَقَّةٍ.
وہ خبر دیتا ہے بغیر زبان اور تالو جبڑے کی حرکت کے، وہ سنتا ہے بغیر کانوں کے سوراخوں اور آلات سماعت کے، وہ بات کرتا ہے بغیر تلفظ کے، وہ ہر چیز کو یاد رکھتا ہے بغیر یاد کرنے کی زحمت کے، وہ ارادہ کرتا ہے بغیر قلب اور ضمیر کے، وہ دوست رکھتا ہے اور خوشنود ہوتا ہے بغیر رقت طبع کے، وہ دشمن رکھتا ہے اور غضبناک ہوتا ہے بغیر غم و غصہ کی تکلیف کے۔
یَقُوْلُ لِمَنْ اَرَادَ كَوْنَهٗ: ﴿كُنْ فَیَكُوْنُ﴾، لَا بِصَوْتٍ یَّقْرَعُ، وَ لَا بِنِدَآءٍ یُّسْمَعُ، وَ اِنَّمَا كَلَامُهٗ سُبْحَانَهٗ فِعْلٌ مِّنْهُ اَنْشَاَهُ، وَ مِثْلُهٗ لَمْ یَكُنْ مِّنْ قَبْلِ ذٰلِكَ كَآئِنًا، وَ لَوْ كَانَ قَدِیْمًا لَّكَانَ اِلٰهًا ثَانِیًا.
جسے پیدا کرنا چاہتا ہے اسے ’’ہو جا!‘‘ کہتا ہے جس سے وہ ہو جاتی ہے، بغیر کسی ایسی آواز کے جو کان (کے پردوں) سے ٹکرائے اور بغیر ایسی صدا کے جو سنی جا سکے۔ بلکہ اللہ سبحانہ کا کلام بس اس کا ایجاد کردہ فعل ہے اور اس طرح کا کلام پہلے سے موجود نہیں ہوسکتا اور اگر وہ قدیم ہوتا تو دوسرا خدا ہوتا۔
واپس اپنے موضوع کی طرف چلتے ہیں:
وَ مَا تِلْكَ بِیَمِیْنِكَ یٰمُوْسٰى۔: آئے موسیٰ ؛ یہ تمہارے دائیں ہاتھ میں کیا ہے ؟ جس پر حضرت موسی سہارا لیتا تھا۔اور خدا کو یہ علم ہے کہ موسی کے ہاتھ میں ایک عصا ہے ۔ خدا یہاں عصا کا نام نہیں لے رہا ،۔۔ پھر کہتا ہے اس عصا کو پھنگ دو۔۔ خدا کہتا ہے تمہارا سہارا میں ہو ں عصا نہیں ہے۔ جب موسی اس کو پھنگتا ہے تو سانپ بن جاتا ہے حضرت موسی علیہ السلام کو پتا چلتا ہے کہ یہ تو ہماری دشمن ہے۔
ہماری جسم بھی اسی لکڑی کی طرح ہےاس میں بھی اہل بہت کی محبت پھنگ دو تو قیمت ہوجائے گی ۔
اسی طرح خدا یہاں موسی سے سوال کررہا ہے کہ آپ کے ہاتھ میں کیا ہے؟ تو حضرت موسی علیہ السلام نے اس کا لمبا جواب دیا اگرچہ ایک لفظ میں جواب دے سکتا تھا اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا سے بات اور مناجات کرنے کہ لذت کچھ اور ہے حضرت موسی چاہتے تھے کہ زیادہ سے زیادہ خدا سے ہم کلام رہے، جسے مناجات کی لذت کا پتہ ہو وہ سجدے سے کبھی سر نہیں اٹھاتے ہیں۔ وہ ذکر خدا سے نہیں تھکتا ہے وہ ہمیشہ نماز بجالاتے ہیں۔ رسول اللہ فرماتے ہیں۔ کہ نماز میری انکھوں کی ٹھنڈک ہے "جس بھوکے کو کھانہ چاہئے مجھے نماز چاہ رہے ہوتے ہیں
بنی اسرائل کے ایک شخص نے اللہ سے مناجات کی : اے اللہ میں نے اتنا گناہ کیا تھا آپ نے مجھے کوئی عقاب نہیں کیا ۔ اللہ کی طرف سے جواب ایا میں نے تجھے پر بہت عقاب کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں مجھے تو پتہ ہی نہیں چلا کی ااتنا عقاب کیا ہے۔جواب آیا کہ میں نے تجھ سے مناجات کرنے کی میٹاس سے محروم کررکھا ہے اور تجھے پتہ ہی ہے۔ اس سے بڑھ کر کوئی عذاب ہی نہیں ہے۔دنیا کہ سب سے شیرین چیز کا آپ کو زایقہ ہی نہیں آرہا ہو۔ یہ ایک عذاب ہے۔
وحى الله إلى داود (عليه السلام) لا تجعل بيني وبينك عالما مفتونا بالدنيا فيصدك عن طريق محبتي فإن أولئك قطاع طريق عبادي المريدين إن أدنى ما أنا صانع بهم أن أنزع حلاوة مناجاتي عن قلوبهم .
اپنے اور اپنے رب کے درمیان دنیا پرست عالم کو قرار نہ دو وہ مجھ تک آنے کے جاتے ہے وہ راہزن ہے انہیں اغوا کرکے کہیں اور بھیج دے گا۔ ایسے ممبرپر انے والوں کی دل سے مناجات کی مٹھاس لے لی جائے گی۔ اسی لئے یہ لوگ احادیث نہیں سناتے ہیں
ہم لوگ اس قسم کے لوگوں کو نہ سنے تو سب مسائل حل ہوجائے گا
معجزات
وَ اضۡمُمۡ یَدَکَ اِلٰی جَنَاحِکَ تَخۡرُجۡ بَیۡضَآءَ مِنۡ غَیۡرِ سُوۡٓءٍ اٰیَۃً اُخۡرٰی لِنُرِیَکَ مِنۡ اٰیٰتِنَا الۡکُبۡرٰی
اور اپنا ہاتھ اپنی بغل میں رکھیے تو وہ بغیر کسی عیب کے چمکتا ہوا نکلے گا، یہ دوسری نشانی ہے (یہ اس لیے) کہ ہم تمہیں اپنی بڑی نشانیاں دکھا دیں۔
اِذۡہَبۡ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ اِنَّہٗ طَغٰی
اب آپ فرعون کی طرف جائیں کہ وہ سرکش ہو گیا ہے۔


