عشرہ محرم 1443 جامعۃ الکوثرمجالس

مجلس عزا 6 محرم الحرام 1443 جامعۃ الکوثر اسلام آباد

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اِذۡہَبۡ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ اِنَّہٗ طَغٰی (نازعات: 17)
(پھر حکم دیا) فرعون کی طرف جائیں بلاشبہ وہ سرکش ہو گیا ہے
جب حضر موسیٰ علیہ السلام کو معجزات مل گئی تو دوسرا مرحلہ آیا کی اب موسیٰ نے فرعون کے پاس جانا ہے۔ یہ بہت سخت مرحلہ تھا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر حضرت موسی علیہ السلام کو کیوں فرعون کے پاس بھیجا، جبکہ موسی کے جان کو خظرہ تھا، اور فرعون نے اسلام قبول نہیں کرنا تھا۔؟
اولا: یہ کہ اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کو فرعون کے پاس اس لئے بھیجا تاکہ اتمام حجت ہوجائے ، چاہئے وہ اس حکم کو مانے یا نہ مانے۔
دوسرا: فرعوں تک پیغام پہنچانے سے پوری دنیا تک پہنچ سکتا تھا۔(کیونکہ فرعون کوئی عام انسان نہیں تھا ایک سلطنت کا بادشاہ تھا) اور خدا کو ہم سب بہت پیار ہے اسی طرح اللہ کو فرعون اور اس کی ہدایت بھی پیارا ہے
قُلۡ یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِیۡعًا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ (طہ: 53)
کہدیجئے:اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، یقینا اللہ تمام گناہوں کو معاف فرماتا ہے، وہ یقینا بڑا معاف کرنے والا ، مہربان ہے۔
ظلم کرنے والوں کے سارے گناہ معاف ہوجاہیں گے ۔ وہ رحیم ہے ۔ وہ اگر توبہ کرلے تورحیم رحیمیہ تک پہنچ جاہیں گے۔
فَقُوۡلَا لَہٗ قَوۡلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوۡ یَخۡشٰی (طہ: 44)
پس دونوں اس سے نرم لہجے میں بات کرنا شاید وہ نصیحت مان لے یا ڈر جائے۔
وہ سرکش ہے لیکن تم دونون نے نرم انداز میں گفتگو کرنا ہے شاید اس کو خوف خدا ہوجائے
جب حضرت موسی علیہ السلام کو ٹاسک اور ذمہ داری مل گئی کہ فرعون کے دربار میں جاکے دعوت دینی ہے ۔
اب موسی کو کیا کرنا چاہئے ؟
قَالَ رَبِّ اشۡرَحۡ لِیۡ صَدۡرِیۡ
موسیٰ نے کہا: میرے رب! میرا سینہ کشادہ فرما،
وَ یَسِّرۡ لِیۡۤ اَمۡرِیۡ
اور میرے کام کو میرے لیے آسان کر دے،
وَ احۡلُلۡ عُقۡدَۃً مِّنۡ لِّسَانِیۡ
اور میری زبان کی گرہ کھول دے،
یَفۡقَہُوۡا قَوۡلِیۡ
تاکہ وہ میری بات سمجھ جائیں۔
وَ اجۡعَلۡ لِّیۡ وَزِیۡرًا مِّنۡ اَہۡلِیۡ ہٰرُوۡنَ اَخِی
میرے بھائی ہارون کو۔ (طہ: 25-30)
موسی کہتے ہیں : میرے سنے کو کشادہ کرے۔ یعنی تنگ نظری سے نجات دیں تاکہ حقائق کو میں سمجھ سکوں۔ اور میرے کام کو اسان کردو۔(ویسری لی)
کشادگی سینہ کا مطلب: نور یقزفہ اللہ فی قلب المومن۔ یہ ایک نور یہ جو قلب مومن میں ڈالا جائے تو اس کا سینہ کشادہ ہوجاتا ہے۔
یہ دل ظرف ہے اس میں سب سے بہترین ظرف وہ ہے جس میں جتنا اجائے ۔پس اس قلب انسان میں جتنا علم ائے گا اس میں وسعت اجائے گی۔
شرح صدر کے ساتھ ہوتا کیا ہے؟ موسی نے یہ دعا نہیں کیا کہ فرعون کو ٹھیک کردے۔ بلکہ یہ دعا کی کہ ہمارے کام کو اسان کردیں۔ شرح صدر کردے۔
اسی طرح ہم کو امام زمانہ عج کے اعوان انصار میں سے ہونے کے لئے بھی یہی دعا کرنے چائے کہ ہم اس قابل ہوجائے کہ امام کے انصار مین سے شمار ہوسکے۔
کَیۡ نُسَبِّحَکَ کَثِیۡرًا
وَّ نَذۡکُرَکَ کَثِیۡرًا
اِنَّکَ کُنۡتَ بِنَا بَصِیۡرًا
تاکہ ہم تیری خوب تسبیح کریں،
اور تجھے کثرت سے یاد کریں۔
یقینا تو ہی ہمارے حال پر خوب نظر رکھنے والا ہے ۔(طہ:)
یہ ساری دعایئں کس لئے ہے؟
اس دعا سے معلوم یہ ہوا کہ حضرت موسی کو اپنے وزیر کے لئے اللہ سے دعا کرنی پڑی
( وَ اجۡعَلۡ لِّیۡ وَزِیۡرًا مِّنۡ اَہۡلِیۡ ۔۔)
اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بنی اپنی حیات میں اپنا وزیر خود متعن نہیں کرسکتا ہے۔ خدا کے بغیر کوئی بھی خدائی مسند پر نہیں آسکتے ہیں۔
قَالَ قَدۡ اُوۡتِیۡتَ سُؤۡلَکَ یٰمُوۡسٰی
فرمایا: اے موسیٰ! یقینا آپ کو آپ کی مراد دے دی گئی۔
موسی کا کام اسان کردیا۔ لیکن موسی کو ہر طرف سے مشکلات اگئی ۔مشکلات کے باوجود حضرت موسی نے اس کاررسالت کو انجام دیا ، اس لئے آج تک حضرت موسی علیہ السلام کا ذکر زندہ ہے۔
وَ اصۡطَنَعۡتُکَ لِنَفۡسِیۡ
اور میں نے آپ کو اپنے لیے اختیار کیا ہے۔
(طہ: 41
ایے موسی ہم نے تجے اپنے لئے اختیا کیا۔۔ آئے ہمیں بھی اپنے لئے اختیار کرئے۔۔۔ورنہ ہماری کوئی قیمت نہیں ہے ۔
موسی نے جو کچھ مانگا سب کچھ دے دیا۔ خدا سے مانگو کہ کسی کام کے لئے اختیار کردو۔
قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَکَ بِاَخِیۡکَ وَ نَجۡعَلُ لَکُمَا سُلۡطٰنًا فَلَا یَصِلُوۡنَ اِلَیۡکُمَا ۚۛ بِاٰیٰتِنَاۤ ۚۛ اَنۡتُمَا وَ مَنِ اتَّبَعَکُمَا الۡغٰلِبُوۡنَ (قصص: 35)
فرمایا: ہم آپ کے بھائی کے ذریعے آپ کے بازو مضبوط کریں گے اور ہم آپ دونوں کو غلبہ دیں گے اور ہماری نشانیوں (معجزات ) کی وجہ سے وہ آپ تک نہیں پہنچ پائیں گے، آپ دونوں اور آپ کے پیروکاروں کا ہی غلبہ ہو گا۔
موسی اور ہاروں ۔۔۔بنی اور وصی
ھارون کب پیدا ہوئے؟ اور کسے محفوظ رہے؟
اس میں چند اقوال ہیں
پہلا قول:ہاروں بڑے تھے موسی سے۔ یعنی پہلے پیدا ہوچکے تھے۔ جس وقت بچوں کو فرعون قتل نہیں کررہے تھے۔
دوسرا قول: فرعون ایک سال بچوں کو قتل کرتا تھا اور ایک سال چھوڑ دیتا تھا۔ تو جس سال بچے قتل نہیں ہوا تھا اس سال ہارون پیدا ہوا۔
کیا حضرت موسی اور ہاروں سگے بھائی تھے یا سوتلے؟ اس میں بھی بحث ہیں
ہمارا موقف ہے کہ یہ دونوں سگے بھائی تھے۔ کیونکہ سامری والے واقعے میں موسی نے ہاروں کو ابن ام کہا ہے یعنی ماں کے بیٹے
حضرت ھارون کے صفات
ھارون کے کیا صفات تھی؟
ھاروں میں پانچ صفات تھیں
بنوت: وَ وَہَبۡنَا لَہٗ مِنۡ رَّحۡمَتِنَاۤ اَخَاہُ ہٰرُوۡنَ نَبِیًّا (مریم)
اور ان کے بھائی ہارون کو ہم نے اپنی رحمت سے نبی بنا کر (بطور معاون) انہیں عطا کیا۔
وزارت: وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَجَعَلْنَا مَعَهُ أَخَاهُ هَارُونَ وَزِيرًا (فرقان: 35)
اور بتحقیق ہم نے موسیٰ کو کتاب عنایت فرمائی اور ان کے بھائی ہارون کو مددگار بنا کر ان کے ساتھ کر دیا۔
شراکت: وَ اَشۡرِکۡہُ فِیۡۤ اَمۡرِیۡ
اور اسے میرے امر (رسالت) میں شریک بنا دے،
جب وحی اتی تھی تو دونوں سنتے تھے کیونکہ دونوں شریک تھے۔( یہاں امام علی فرماتے تھے ۔ میں دیکھتا ہوں جو دوسرے نہیں دیکھتے۔ میں غار حرا میں رسول خدا اور بنوت کی خشبو سنگتا تھا۔
ہاروں اور موسی کا گھر ایک ہے کیونکہ دونوں شراکت ہے ( رسول اللہ فرماتے ہیں کہ طوبی علی بن ابی طالب کے گھر ہوگا۔ تو کسی صحابی نے اعتراض کیا کہ آپ نے پہلے کہا تھا کہ میرے گھر میں ہوگا آج کہہ رہا ہے کہ علی کے گھر میں ہوگا۔یہ تناقص گوئی ہوگیا۔ آپ ص نے فرمایا جنت میں میرا اور علی کا گھر ایک ہی ہوگا۔ میرے گھر میں ہے کا مطلب علی کے گھر میں ہے اور علی کے گھر میں ہے کا مطلب میرے گھر میں ہے) اور موسی اور ھارون کا گھر ایک ہی ہے دونون پر وحی نازل ہورہی ہے۔
خلافت: وَ قَالَ مُوۡسٰی لِاَخِیۡہِ ہٰرُوۡنَ اخۡلُفۡنِیۡ فِیۡ قَوۡمِیۡ (اعراف 142)
اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا: میری قوم میں میری جانشینی کرنا
اخوت:
یہ پانچ خصوصیات ھاروں میں ہیں۔
اب دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ ص فرماتے ہیں : ” أنتَ مِنّی بِمَنزلةِ هارونَ مِنْ مُوسی، اِلّاأنـّه لانَبی بَعدی
اے علی! تمہارے لئے میرے نزدیک وہی منزلت ہے جو ہارون کے لئے کو موسیٰ کے نزدیک تھی، سوا اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔

مذکورہ پانچ صفات میں سے بنوت کے علاوہ باقی چار صفات امام علی علیہ السلام میں ہے۔
يا علي أنت مني بمنزلة هبة الله من آدم، وبمنزلة سام من نوح، وبمنزلة إسحاق من إبراهيم، وبمنزلة هارون من موسى، وبمنزلة شمعون من عيسى، إلا أنه لا نبي بعدي، يا علي أنت وصيي وخليفتي، فمن جحد وصيتك وخلافتك فليس مني ولست منه، وأنا خصمه يوم القيامة، يا علي أنت أفضل أمتي فضلا، وأقدمهم سلما، وأكثرهم علما، وأوفرهم حلما، وأشجعهم قلبا، وأسخاهم كفا، يا علي أنت الإمام بعدي والأمير، وأنت الصاحب بعدي والوزير، ومالك في أمتي من نظير، يا علي أنت قسيم الجنة والنار، بمحبتك يعرف الأبرار من الفجار، ويميز بين الأشرار والأخيار، وبين المؤمنين والكفار (بحار الأنوار – العلامة المجلسي – ج ٣٧ – الصفحة ٢٥٤)

حدیث منزلت کے ہوتے ہوئے ہمیں اور کوئی دلیل نہیں چاہئے خلافت امام علی علیہ السلام پر۔
اس کے علاوہ جو دلیل مانگے ہم دے سکتے ہیں۔
حدیث منزلت کو بخاری نے پیش نہیں کیا ہے۔ باقی تمام کتابوں میں ہے۔
بخاری مین باب فضائل میں امام علی ع میں صرف تین احادیث نقل ہوئی ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے جس سے ہم اامام علی کی خلافت کو ثابت کرسکتے ہیں۔ یا علی انت منی وانامک۔۔ یہ چار کلمات ہیں اسی سے سب کچھ ثابت ہیں۔
حدیث منزلت پر گفتگو کرتے ہیں:
سب سے پہلا ہے اخوت
مدینے میں اخوت قائم ہوئی تو امام علی علیہ السلام کا کوئی بھائی نہیں بنایا تو امام علی نے شکایت کی تو آپ ص نے فرمایا ،
ما أخرتك أنت أخي ووارثي، قال: وما أرث منك يا رسول الله قال: ما ورثت الأنبياء من قبلي. قال: وما ورثت الأنبياء من قبلك؟ قال: كتاب ربهم، وسنة نبيهم، وأنت معي في قصري في الجنة
آپ میرا بھائی ہے ، میرا وارث ہے امام علی نے پوچھا کس چیز کا وارث ہے تو آپ نے فرمایا کہ تمام ابنیا نے اپنے وصی کو جو ورثات میں دیا ہے وہی کچھ آپ کو ملے گا اور قیامت کے دن میرے ساتھ قصر میں ہوگا
وزارت:
وَ إِنَّ اللَّهَ لَمْ يبْعَثْ نَبِياً إِلَّا وَ جَعَلَ لَهُ مِنْ أَهْلِهِ أَخاً وَ وَزِيراً وَ وَارِثاً وَ وَصِياً وَ خَلِيفَةً فِي أَهْلِهِ فَأَيكُمْ يقُومُ فَيبَايعُنِي عَلَى أَنَّهُ أَخِي وَ وَارِثِي وَ وَزِيرِي وَ وَصِيي وَ يكُونُ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَانَبِي بَعْدِي
رسالت مآب کا وزیر خدا تعین کرتے ہیں
قال أمير المؤمنين (عليه السلام): كنا اذا اشتد القتال لذنا برسول الله صلى الله عليه وآله
جب جنگ کی شدت بڑھ جاتی تھی تو ہم رسول خدا کے سائے میں پناہ لیتے تھے۔

وَ اجۡعَلۡ لَّنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ وَلِیًّا ۚۙ(نساء 75)
اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا سرپرست بنا دے
مجھے تیرے پاس سے ولی چائے۔ ااسی لئے محمد کو جو وصی چائے وہ اپنے گھر میں پیدا کی۔۔ مدد کرنے وال دے دے۔
قل رب ادخلنی مد
اجۡعَلۡ لِّیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ سُلۡطٰنًا نَّصِیۡرًا (اسراء 80)
اور اپنے ہاں سے مجھے ایک قوت عطا فرما جو مددگار ثابت ہو۔

خلافت:
اما ترضی ان تکون منّی بمنزلة هارون من موسی إلاّ أنه لانبیّ بعدی
اس کا مطلب ہے آپ خلیفہ بھی ہے
یہ نہیں ہوسکتا کہ میں نہ رہوں مگر انکہ آپ میرے خلیفہ ہے
اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب کچھ بیان کیا ہے اس کے باوجود مسلمانون کی اکثرت آج امام علی کو خلیفہ کیوں نہیں مانتے اس وقت مانتے تھے۔ بنی امیہ نے ہر طرح سے فضائل اہلیت چھپانے کی کوشش کی لیکن پھر بھی ہم تک پہنچ گئے۔
رسول اللہ ص امام علی ع سے فرماتے ہیں کہ اےعلی جنت میں تیرا باغ اس بھی زیادہ خوبصورت ہے پھر رسول اللہ رونے لگے علی علیہ السلام نے رونے کی وجہ پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ لوگوں کے دلوں میں سےآپ سے کینہ ہے ابھی میری وجہ سے ان کے کینے چھپا ہوا ہے۔ آج کے مسلمان کو علی کے فضائل سننے اور بیان کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہونا چائے۔ اس وقت بدر و حنین کا کینہ تھا۔
علی ع کو رسول اللہ ص سے وہ نسبت ہے جو ھارون کو موسیٰ سے تھی۔ ھارون کے پانچ خصوصیات تھیں۔ علی علیہ السلام کو بھی وہی نسبت ہے سوائے نبوت کے۔۔ اب جتنا موسی اور رسول اللہ ص میں فرق ہے اتنا علی ع اور ھارون میں فرق ہے۔ آب تاریخ چیک کیجئے کہ محمد ص اور موسی علیہ السلام میں کتنا فرق ہے۔ وہی فرق علی علیہ السلام اور ھارون میں بھی ہے ۔ ھارون شریک موسی ہے تو علی علیہ السلام شریک محمد ص ہے۔ علی شریک اور نفسی رسول ہے ۔ جب ھاروں اور موسی شریک ہے تو نہ نہیں ہوسکتا ہے کہ موسی کہ اتباع کرے اور ھارون کی نہ کرے۔ اسی طرح یہ نہیں ہوسکتا ہے جو محمد کی اتباع کرے اور علی کی اتباع نہ کرے۔
لحمه لحمي، ودمه دمي، هو مني بمنزلة هارون من موسى، إلا أنه لا نبي بعدي (المعجم الكبير: 12/15)
اللہ نے مجھے رسالت کے ذریعے فضیلت دی ہے اور علی کو تبلیغ رسالت کے ذریعے فضیلت دی ہے
خلاصہ ھارون کے پانچ خصوصیات علی علیہ السلام میں بھی ہے سوائے نبوت کے،)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button