عشرہ محرم 1443 جامعۃ الکوثرمجالس

مجلس عزا 7 محرم الحرام 1443 جامعۃ الکوثر اسلام آباد

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اِذۡہَبۡ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ اِنَّہٗ طَغٰی (نازعات: 17)
(پھر حکم دیا) فرعون کی طرف جائیں بلاشبہ وہ سرکش ہو گیا ہے
جب حضر موسیٰ علیہ السلام کو معجزات مل گئی تو دوسرا مرحلہ آیا کی اب موسیٰ نے فرعون کے پاس جانا ہے۔
گزشتہ مجلس میں ہم نے حضرت ھارون کے صفات کو بیان کررہے تھے
ھاروں میں پانچ صفات تھیں
بنوت: وَ وَہَبۡنَا لَہٗ مِنۡ رَّحۡمَتِنَاۤ اَخَاہُ ہٰرُوۡنَ نَبِیًّا (مریم)
اور ان کے بھائی ہارون کو ہم نے اپنی رحمت سے نبی بنا کر (بطور معاون) انہیں عطا کیا۔
وزارت: وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَجَعَلْنَا مَعَهُ أَخَاهُ هَارُونَ وَزِيرًا (فرقان: 35)
اور بتحقیق ہم نے موسیٰ کو کتاب عنایت فرمائی اور ان کے بھائی ہارون کو مددگار بنا کر ان کے ساتھ کر دیا۔
شراکت: وَ اَشۡرِکۡہُ فِیۡۤ اَمۡرِیۡ
اور اسے میرے امر (رسالت) میں شریک بنا دے،
خلافت: وَ قَالَ مُوۡسٰی لِاَخِیۡہِ ہٰرُوۡنَ اخۡلُفۡنِیۡ فِیۡ قَوۡمِیۡ (اعراف 142)
اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا: میری قوم میں میری جانشینی کرنا
اخوت:
یہ پانچ خصوصیات ھاروں میں ہیں۔
اب دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ ص فرماتے ہیں : يا علي أنتَ مِنّی بِمَنزلةِ هارونَ مِنْ مُوسی، اِلّاأنـّه لانَبی بَعدی
اے علی! تمہارے لئے میرے نزدیک وہی منزلت ہے جو ہارون کے لئے کو موسیٰ کے نزدیک تھی، سوا اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔
مذکورہ پانچ صفات میں سے بنوت کے علاوہ باقی چار صفات امام علی علیہ السلام میں ہے۔
اگر ان روایات میں درایت الحدیث سے دیکھے تو چار سے بزیادہ چیزون کو علی کے لئے ثابت کرتے ہیں۔
تمام انبیاء مقدمہ تھے خاتم الانبیاء کے لئے ۔ ان کے آنے کا ایک ہی فلسفہ ہے کہ لوگو اس قابل ہوجائے کہ محمد عربی ص عطا ہوسکے۔ اور رسالت جو انحضرت کو عطا ہوئی اس کی حفاظت اور دنیا تک پہنچانے کاکام علی اور ولاد علی کا ہے۔
يا علي؛ فإن حياتك وموتك معي، وأنت أخي، وأنت وصيي، وأنت صفيي، ووزيري، ووارثي، والمؤدي عني، وأنت تقضي ديني، وتنجز عداتي عني، وأنت تبرئ ذمتي، وتؤدي أمانتي، وتقاتل على سنتي الناكثين من أمتي، والقاسطين، والمارقين، وأنت مني بمنزلة هارون من موسى،

ولك بهارون أسوة حسنة؛ إذ استضعفه قومه وكادوا يقتلونه، فاصبر لظلم قريش إياك وتظاهرهم عليك؛ فإنك بمنزلة هارون من موسى

اے علی تو موت اور حیات دونوں میں میرا شریک ہے، تو میرا بھائی ہے، میرا وصی ہے، صفی ہے، وزیرہے، وارث ہے، مددگار ہے، آپ میرے قرض ادا کرنے والا ہے، میری امانتیں ادا کرنے والا ہے (تمام حجرتین رات تاریکی میں ہوئی۔ جب رسول اللہ نے مکہ چھوڑا تو دوسرے دن علی علیہ السلام نے علان کیا کی میں بھی مکہ چھوڑ رہا ہوا جن کا میرے بھائی کے ذمہ کوئی امانت ہے وہ آکے مجھ سے لے لو)
شراکت؛
أيها الناس أنا البشير وأنا النذير وأنا النبي الأمي، إني مبلغكم عن الله عز وجل في أمر رجل لحمه من لحمي ودمه من دمي، وهو عيبة العلم وهو الذي انتجبه الله من هذه الأمة واصطفاه وهداه وتولاه، وخلقني وإياه وفضلني بالرسالة وفضله بالتبليغ عني، وجعلني مدينة العلم وجعله الباب، وجعله خازن العلم (3) والمقتبس منه الاحكام، وخصه بالوصية وأبان أمره، وخوف من عداوته، وأزلف من والاه وغفر لشيعته، وأمر الناس جميعا بطاعته، وإنه عز وجل يقول: من عاداه عاداني، ومن والاه والاني، ومن ناصبه ناصبني، ومن خالفه خالفني، ومن عصاه عصاني، ومن آذاه آذاني، ومن أبغضه أبغضني ومن أحبه أحبني، ومن أراده أرادني، ومن كاده كادني، ومن نصره نصرني. يا أيها الناس اسمعوا ما آمركم به وأطيعوه، فإني أخوفكم عقاب الله (يوم تجد كل نفس ما عملت من خير محضرا وما عملت من سوء تود لو أن بينها وبينه أمدا بعيدا ويحذركم الله نفسه
ثم أخذ بيد علي أمير المؤمنين فقال: معاشر الناس هذا مولى المؤمنين وحجة الله على الخلق أجمعين (1) والمجاهد للكافرين، اللهم إني قد بلغت وهم عبادك، وأنت القادر على صلاحهم فأصلحهم برحمتك يا أرحم الراحمين، أستغفر الله لي ولكم. ثم نزل عن المنبر، فأتاه جبرئيل (عليه السلام) فقال: يا محمد إن الله عز وجل يقرؤك السلام ويقول لك: جزاك الله عن تبليغك خيرا (2) فقد بلغت رسالات ربك ونصحت لامتك وأرضيت المؤمنين وأرغمت الكافرين، يا محمد إن ابن عمك مبتلى ومبتلى به، يا محمد قل في كل أوقاتك:
بحار الأنوار – العلامة المجلسي – ج ٣٨ – الصفحة ١١٣
اور پھر فرمایا : اے لوگو! میں بشیر ہوں (بشارت دینے والا) میں نذیر ہوں (یعنی ڈرانے والا) میں بر حق نبی ہوں اور میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسے مد کے حق میں تبلیغ کرنے والا ہوں جس کا گوشت میرا گوشت ہے جس کا خون میرا خون ہے۔ وہ علم کا خزانہ ہے اور اس کو اللہ نے اس امت سے منتخب فرمایا ہے اور اس کو چن لیا ہے اس کو اپنا محبوب بنایا ہے اور اس کی ہدایت فرمائی ہے۔ مجھے اور اس کو ایک مٹی سے بنایا ہے۔
پس مجھے اس نے رسالت کے ساتھ فضیلت عطا فرمائی ہے اور اس کو میرے تبلیغ کی فضیلت عطا فرمائی ہے۔ مجھے علم کا شہر قرار دیا ہے اور اس کو اس کا دروازہ قرار دیا ہے اور اس کا علم کا خازن (یعنی خزانہ دار) قرار دیا ہے اور احکامِ دین کو اس سے لیا جائے گا اور اس کو وصایت و وصی قرار دیا گیا ہے اور اس کے امر کو ظاہر کیا ہے اور کی عداوت کے خوف کو بھی۔ اور اس کی موالات کو واجب قرار دیا ہے۔ اور اللہ نے تمام لوگوں کو اس کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور تحقیق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ جو اس سے عداوت رکھے گا گویا اس نے مجھ سے عداوت کی ہے اور جس نے اس سے دوستی کی اس نے مجھ سے دوستی کی ہے۔ جس نے اس سے بُغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔ جس نے اس کی مخالفت کی اس نے میری مخالفت کی اور جس نے اس کی نا فرمانی کی اس نے میری نا فرمانی کی، اور جس نے اس کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی ہے۔ جس نے اس سے دشمنی رکھی اس نے مجھ سے دشمنی کی اور جس نے اس سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے اس کی اطاعت کی اس نے میرے اطاعت کی۔ اور جس نے اس کو راضی کیا اس نے مجھے راضی کیا اور جس نے اس کی حفاظت کی اس نے میری حفاظت کی۔ جس نے اس سے جنگ کی اس نے مجھ سے جنگ کی۔ جس نے اس کی مدد کی اس نے میری مدد کی۔ اور جس نے اس کا ارادہ کیا اس نے میرا ارادہ کیا اور جس نے اس کو روکا اس نے مجھے روکا۔
پھر فرمایا : اے لوگو ! جس کا تم کو اس کے بارے میں حکم دیا جائے اس کی اطاعت کرو اور میں تم کو اللہ کے عذاب سے ڈراتا ہوں ( یوم تجد کل نفس ما عملت من خیر محضرا وما عملت من سوء تودو لو ان بینھا وبینہ امدا بعیدا ویو ذرکم اللہ نفسہ)
’’ جس دن ہر نفس نے جو کچھ اس نے نیکی انجام دی ہو گی اس کو وہ اپنے سامنے پائے گا اور جو کچھ اس نے برا کام کیا ہو گا اس کو بھی اپنے سامنے پائے گا اور وہ خواہش کرے گا کہ اس کے اور اس کے عمل کے درمیان بہت زیادہ دوری ہو جائے اور اللہ تم کو اپنے آپ سے ڈراتا ہے ‘‘
رسول خدا ﷺ نے امیر المومنین علی ابن ابی طالب کا ہاتھ پکڑ ا اور فرمایا :
’’اے لوگو! یہ ہے مومنین کا مولا، کافروں کو قتل کرنے والا اور یہ سارے جہانوں پر اللہ کی حجت ہے اور فرمایا : اے میرے اللہ ! میں نے اس کی تبلیغ کر دی ہے اور یہ تیرے بندے ہیں اور تو ان کی اصلاح پر قدرت و طاقت رکھتا ہے۔ اپنی رحمت کے ساتھ ان کی اصلاح فرما کیونکہ تو ہی رحم کرنے والا ہے‘‘۔
پھر آپ ؐ منبر سے نیچے تشریف فرما ہوئے پس حضرت جبرائیل ؑ نازل ہوئے اور عرض کیا :
یا محمد ﷺ ! اللہ آپ کو سلام کہہ رہا ہے اور فرماتا ہے کہ آپؐ نے خیر کی تبلیغ کی ہے اس پر آپ ﷺ کے رب کی طرف سے آپؐ کے لیے جزائے خیر ہے۔ پس آپ ؐ نے اپنے رب کی رسالت کی تبلیغ فرمائی ہے اور اپنی امت کو نصیحت فرمائی ہے اور مومنین کو خوش کیا ہے اور کافرین کو ذلیل و رسوا کیا ہے۔ اے محمد ﷺ ! تحقیق یہ آپؐ کے چچا زاد کا ان کی وجہ سے امتحان ہو گا اور ان میں اُن کو آزمایا جائے گا۔
اے لوگو، میں بشارت دینے والا ہوں، میں ڈرانے والا ہوں، میں اس امت کے نبی ہوں، میں اللہ کی طرف اس شخص کے بارے میں تبلیغ کرتا ہوں، جس کا خون میرس خون ہے، جس کا گوشت می
حدیث منزلت:
ابن تیمیہ کا اعتراض:
اس حدیث سے علی علیہ السلام کی فضائل بھی ثابت نہیں ہے اورنہ اس سے امامت ثابت ہوسکتی ہے
کیونکہ جنگ تبوک میں رسول اللہ ص نے علی کو خلیفہ بنایا تو باقی غزوات میں دوسرے لوگوں کو خلیفہ بنایا۔ اگر اس سے خلیفہ علی کی خلافت ثابت ہوجائے تو بہت سے لوگ خلیفہ بن جایئں گے۔
دوسرا: اس وقت مدینہ میں کوئی بھی مرد نہیں تھا۔ اس لئے علی کو خلیفہ بنایا۔
جواب: اولا یہ خصوصیت تو ثابت ہوئی کہ اتنے بڑے جنگ میں جاتے ہوئے صرف علی ہی خلیفہ بناکے مدینہ چھوڑکر گئے۔
درسرا ہمارا استدلال نص رسول سے ہے کسی حادثے سے نہیں ہے۔ جن کے پاس نص نہیں ہے تو کسی حادثہ سے امامت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلا اگر رسول اللہ نے کسی کو نماز پڑھانے کا حکم دیا ہے تو یہ اس وقت تھا جب رسول موجود نہیں تھا ۔ یہ ایک حادثہ تھا۔جس طرح اس سے اس کی امامت ثابت نہیں ہوسکتی اسی طرح کسی اور کی امامت بھی ثابت نہیں ہوسکتی۔ فقط نص و قول رسول سے ہی امامت ثابت ہوسکتا ہے۔(دوسرا یہ کہ رسول خدا نے دوسرے اور لوگوں کےلئے بھی نماز پڑھانے کا حکم دیا تھا تو ان کے لئے بھی یہ ثابت ہونا چاہئے جبکہ ایسا نہیں ہے) اور جب رسول اللہ مسجد میں ہو کوئی دوسرا نماز پڑھائے یہ ممکن نہیں ہے اور نہ ہی ایسا ہوا ہے کہ رسول کی موجودگی میں کسی نماز میں امامت کی ہو۔
دوسرا یہ کہ مدینہ میں کوئی اور نہیں تھا تو علی کو خلیفہ بنایا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ غزوہ تبوک سب سے اہم غزوہ ہے وہان پر سازش چلی منافقین کی طرف سے کہ اس جنگ میں رسول اللہ کا لیکر جائے گا۔جب رسول اللہ سارے لیکر جنگ میں چلے جایئن گے تو یہاں سے نصاریٰ حملہ کرینگے وہاں مدینہ سے منافقین بغاوت کرینگے ۔ اس پلان کو رسول اللہ کو پتہ تھا اس لئے ایک کمزور صحابی کو مدینہ چھوڑ کر گئے اور راستے سے علی علیہ السلام کو واپس بھیج دیا۔ علی جب واپس مدینہ ائے تو ان کے سارے سازش ناکام ہوگئے ۔
ان تمام احادیث جو روز روشن کی طرح واضح ہے پھر بھی یہ لوگ اس کو نہیں مانتے۔ اگر یہ حدیث صرف غزوہ تبوک کے موقع پر کہتا پھر بات نبتی تھی۔ بلکہ رسول اللہ نے کئی جگہوں پر بے شمار تکرار کیا ہے۔ مواخات کے موقع پر حدیث منزلت فرمائی۔ ام سلمہ، اسما بنت عمیر نے اس حدیث کو نقل کیا ہے۔
منزلت کیون نہیں ہے؟
سعید بن نے ابی وقاص سے معاویہ کہتا ہے کہ تم علی پر سب و شتم کیوں نہیں کرتے ۔ سعد کہتا ہے علی تین چیزین ایسی ہے اگر ان میں سے ایک بھی مجھ میں ہوتی تو وہ دنیا و آخرت سب سے بہتر ہوتی اور سب سے افضل ہوتی۔ سعد نے حدیث منزلت سنائی۔ تو یزید کے باب نے کہا یہ حدیث کسی اور نے بھی سنی ہے؟ تو سعد نے کہا ام سلیمہ کے پاس جاتے ہین تو تصدیق کرے گی۔ پھر ان کے پاس جاتی ہے تو وہ تصدیق کرتی ہے تو یزید کا باب کہتا ہے کہ اگر یہ حدیث مجھے پہلے پتہ چلتا تو میں علی سے جنگ نہیں کرتا۔ اس سے یہ واضح ہوا کہ معاویہ کے لئے بھی حدیث منزلت سے علی علیہ السلام کی فضائل ثابت ہوگئے ۔جبکہ ابن تیمیہ کے لئے نہیں ہوا ! معاویہ کو علی فضائل کا زیادہ علم تھا پھر بھی جنگ کیا۔
باقی اصحاب میں
عن أبي الطفيل قال : خطبنا الحسن بن علي بن أبي طالب فحمد الله وأثنى عليه وذكر أمير المؤمنين عليا رضي الله عنه خاتم الأوصياء ووصي الأنبياء وأمين الصديقين والشهداء ثم قال : يا أيها الناس لقد فارقكم رجل ما سبقه الأولون ولا يدركه الآخرون لقد كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يعطيه الراية فيقاتل جبريل عن يمينه وميكائيل عن يساره فما يرجع حتى يفتح الله عليه
ولقد قبضه الله في الليلة التي قبض فيها وصي موسى وعرج بروحه في الليلة التي عرج فيها بروح عيسى بن مريم وفي الليلة التي أنزل الله عز و جل فيها الفرقان
ابوطفیل سے منقول ہے کہ حسن بن علی نے خطبہ پڑھا خدا کی حمد و ثنا کی اور خاتم الانبیا کی وصی یعنی حضرت علی کاتذکرہ کیا اور فرمایا اے لوگو! آج وہ شخص تم سے جدا ہوا ہے کہ اُسکے علم کو نہ پہلے پہنچے ہیں اور نہ بعد کو آنیوالے پہنچیں گے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُسے (جنگ کے لئے) جھنڈا دے کر بھیجتے تھے تو جبرائیل علیہ السلام اسکے داہنے طرف ہو جاتے تھے اور میکائیل علیہ السلام بائیں طرف۔ پس وہ بغیر فتح حاصل کئے واپس نہیں ہوتے تھے
بے شک خدا نے ان روح اس رات قبض فرمائی جس رات وصی موسی کی روح قبض ہوئی تھیاسی رات عیسی آسمان اٹھائے گئے اور اسی شب قرآن اترا۔
(مجمع الزوائد – الهيثمي )الكتاب : مجمع الزوائد ومنبع الفوائد المؤلف : نور الدين علي بن أبي بكر الهيثمي الناشر : دار الفكر، بيروت – 1412 هـعدد الأجزاء : 10

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button