عشرہ محرم 1443 جامعۃ الکوثرمجالس

مجلس عزا 8 محرم الحرام 1443 جامعۃ الکوثر اسلام آباد

وَ قَالَ مُوۡسٰی یٰفِرۡعَوۡنُ اِنِّیۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ
اور موسیٰ نے کہا: اے فرعون! میں رب العالمین کا رسول ہوں۔ (سورہ اعراف: 104)
داستان حضرت موسیٰ علیہ السلام
جب حضرت مو سیٰ علیہ السلام کو مصر سے نکالا تو راستے میں اگ کا حادثہ پیش آیا ، اور پھر وہاں سے حضرت موسی ٰ علیہ السلام کو معجزات اور ذمہ داری بھی ملتی ہے جو کہ فرعون کے دربار میں جاکے ان کو عوتِ توحید دینا تھا۔
اب حضرت موسیٰ علیہ السلام معجزات کے ساتھ حضرت ہارون کو لیکر مصر کی طرف سفر اختیار کرتے ہیں ۔ قرآن نے یہ نہیں ذکر کیا ہے کہ موسی کیسے مصر آیئے۔ تورات میں اس طرح بیان ہوا ہے کہ اللہ نے ہارون کو وحی کی کہ موسی آرہا ہے اس کی استقبال کےلئے جائے، اور جبل الرب کے پاس جاکر حضرت موسی کی استقبال کی اور پھر وہان سے موسی اور ہاروں فرعون کے دربار میں گئے۔ فرعون کے دربار پہنچ کر ان کو اللہ کی طرف سے حکم ہوا کہ :
فَقُوۡلَا لَہٗ قَوۡلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوۡ یَخۡشٰی
پس دونوں اس سے نرم لہجے میں بات کرنا شاید وہ نصیحت مان لے یا ڈر جائے۔ (سورہ طہ: 44)
نرم آواذ سے فرعون سے بات کرنی ہے۔ یہ ہمارے لئے بھی ہیں کہ جب کسی سے بات کرنا ہے تو نرمی کے ساتھ کرنا ہے۔یہ قرآنی روش تبلیغ ہے۔ ہمیشہ پیار سے بات کرو۔ اگرچہ فرعون سرکش ہو گیا ہے تاہم گفتگو میں پھر بھی نرمی ہو کیونکہ انداز کلام میں اگر شیرینی نہیں ہے تو مضمون کلام خواہ کتنا ہی معقول کیوں نہ ہو، موثر نہیں ہوتا
سورہ دخان کی آیات میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:
وَ لَقَدۡ فَتَنَّا قَبۡلَہُمۡ قَوۡمَ فِرۡعَوۡنَ وَ جَآءَہُمۡ رَسُوۡلٌ کَرِیۡمٌ
اور بتحقیق ان سے پہلے ہم نے فرعون کی قوم کو آزمائش میں ڈالا اور ان کے پاس ایک معزز رسول آیا۔
اَنۡ اَدُّوۡۤا اِلَیَّ عِبَادَ اللّٰہِ ؕ اِنِّیۡ لَکُمۡ رَسُوۡلٌ اَمِیۡنٌ
(اس رسول نے کہا) کہ اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کر دو، میں تمہارے لیے امانتدار رسول ہوں۔
وَّ اَنۡ لَّا تَعۡلُوۡا عَلَی اللّٰہِ ۚ اِنِّیۡۤ اٰتِیۡکُمۡ بِسُلۡطٰنٍ مُّبِیۡنٍ
اور اللہ کے مقابلے میں برتری دکھانے کی کوشش نہ کرو، میں تمہارے پاس واضح دلیل لے کر آیا ہوں۔ (سورہ دخان آیت: 17-19)
سورہ اعراف کی ایات میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:
وَ قَالَ مُوۡسٰی یٰفِرۡعَوۡنُ اِنِّیۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ
اور موسیٰ نے کہا: اے فرعون! میں رب العالمین کا رسول ہوں۔
حَقِیۡقٌ عَلٰۤی اَنۡ لَّاۤ اَقُوۡلَ عَلَی اللّٰہِ اِلَّا الۡحَقَّ ؕ قَدۡ جِئۡتُکُمۡ بِبَیِّنَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ فَاَرۡسِلۡ مَعِیَ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ
(مجھ پر) لازم ہے کہ میں اللہ کے بارے میں صرف حق بات کروں، میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح دلیل لے کر آیا ہوں، لہٰذا تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ جانے دے۔ (سورہ اعراف آیت: 104- 106)
پھر فرمایا
فَاۡتِیٰہُ فَقُوۡلَاۤ اِنَّا رَسُوۡلَا رَبِّکَ فَاَرۡسِلۡ مَعَنَا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ۬ۙ وَ لَا تُعَذِّبۡہُمۡ ؕ قَدۡ جِئۡنٰکَ بِاٰیَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ السَّلٰمُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الۡہُدٰی
دونوں اس کے پاس جائیں اور کہیں: ہم دونوں تیرے رب کے بھیجے ہوئے ہیں پس بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے دے اور ان پر سختیاں نہ کر، بلاشبہ ہم تیرے رب کی طرف سے نشانی لے کر تیرے پاس آئے ہیں اور سلام ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔ (سورہ طہ: 47)
ان ایتوں میں تبلیغ کا روش بیان ہوا ہے۔ یعنی فرعون نے جتنے جرایم کیا ہے اس کو بھول جاو جبکہ ان سے نرمی سے بات کیجئے۔ پرانی باتوں کو بھول جایئں۔ پس ان آیات میں درجہ ذیل نکات بیان ہوئی ہے۔
پہلی روش: گزشتہ باتوں کو بھول کر نرمی سے بات کرنا
دوسری روش حضرت موسی کی۔ ترغیب ہے۔ یعنی فرعون سے کہا کہ تو سلطان رہے گا۔ جبکہ تونے اللہ پر ایمان لانا ہے۔
تیسرا : سلامتی یعنی میں امن کی بات کررہاہوں
ان آیات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے دربار میں جانے کا حکم دیا اور ان کی حفاظت بھی فرمائی۔
جیساکہ ان آیتوں میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:
اِذۡہَبۡ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ اِنَّہٗ طَغٰی
اب آپ فرعون کی طرف جائیں کہ وہ سرکش ہو گیا ہے۔
فَقُوۡلَا لَہٗ قَوۡلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوۡ یَخۡشٰی
پس دونوں اس سے نرم لہجے میں بات کرنا شاید وہ نصیحت مان لے یا ڈر جائے۔
قَالَا رَبَّنَاۤ اِنَّنَا نَخَافُ اَنۡ یَّفۡرُطَ عَلَیۡنَاۤ اَوۡ اَنۡ یَّطۡغٰی
دونوں نے کہا: اے ہمارے رب! ہمیں خوف ہے کہ وہ ہم پر زیادتی کرے گا یا مزید سرکش ہو جائے گا۔
قَالَ لَا تَخَافَاۤ اِنَّنِیۡ مَعَکُمَاۤ اَسۡمَعُ وَ اَرٰی
فرمایا: آپ دونوں خوف نہ کریں میں آپ دونوں کے ساتھ ہوں اور (دونوں کی بات) سن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں۔
(سورہ طہ: 43- 45)

دوسری طرف فرعون کے دربار میں مومن آل فرعون تھا۔ جو کہ تقیہ میں تھا۔(اس سے واضح ہوتا ہے کہ تقیہ کوئی برا عمل نہیں بلکہ برا وہ شخص ہے جس کی وجی سے لوگوں کو تقیہ کرنا پڑے)
قَالُوۡۤا اَرۡجِہۡ وَ اَخَاہُ وَ اَرۡسِلۡ فِی الۡمَدَآئِنِ حٰشِرِیۡنَ
انہوں نے کہا: موسیٰ اور اس کے بھائی کو کچھ مہلت دو اور لوگوں کو جمع کرنے والے( ہرکاروں) کو شہروں میں روانہ کر دو۔
یَاۡتُوۡکَ بِکُلِّ سٰحِرٍ عَلِیۡمٍ
وہ تمام ماہر جادوگروں کو تمہارے پاس لائیں، (سورہ اعراف : 111- 112)
اب میدان سچ گیا
فَلَنَاۡتِیَنَّکَ بِسِحۡرٍ مِّثۡلِہٖ فَاجۡعَلۡ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکَ مَوۡعِدًا لَّا نُخۡلِفُہٗ نَحۡنُ وَ لَاۤ اَنۡتَ مَکَانًا سُوًی
پس ہم بھی تمہارے مقابلے میں ایسا ہی جادو پیش کریں گے، لہٰذا ہمارے اور اپنے درمیان ایک وقت جس کی نہ ہم خلاف ورزی کریں اور نہ تم، صاف میدان مقرر کر لو۔
قَالَ مَوۡعِدُکُمۡ یَوۡمُ الزِّیۡنَۃِ وَ اَنۡ یُّحۡشَرَ النَّاسُ ضُحًی
موسیٰ نے کہا: تمہارے ساتھ جشن کے دن وعدہ ہے اور یہ کہ دن چڑھے لوگ جمع کیے جائیں۔
فَتَوَلّٰی فِرۡعَوۡنُ فَجَمَعَ کَیۡدَہٗ ثُمَّ اَتٰی
پس فرعون نے پلٹ کر اپنی ساری مکاریوں کو یکجا کیا پھر (مقابلے میں) آ گیا۔ (سورہ طہ: 51-55)
تو سب سے پہلے سارے جادوگر فرعون کے پاس آکے کہتے ہیں
فَلَمَّا جَآءَ السَّحَرَۃُ قَالُوۡا لِفِرۡعَوۡنَ اَئِنَّ لَنَا لَاَجۡرًا اِنۡ کُنَّا نَحۡنُ الۡغٰلِبِیۡنَ
جب جادوگر آ گئے تو فرعون سے کہنے لگے: اگر ہم غالب رہے تو ہمارے لیے کوئی صلہ بھی ہو گا؟
قَالَ نَعَمۡ وَ اِنَّکُمۡ اِذًا لَّمِنَ الۡمُقَرَّبِیۡنَ
فرعون نے کہا: ہاں! اور اس صورت میں تو تم مقربین میں سے ہو جاؤ گے۔
تقرب الی فرعون ان کے فخر کی بات ہے۔۔۔
قَالَ لَہُمۡ مُّوۡسٰۤی اَلۡقُوۡا مَاۤ اَنۡتُمۡ مُّلۡقُوۡنَ
موسیٰ نے ان سے کہا: تمہیں جو پھینکنا ہے پھینکو۔ (سورہ شعراء : 41-41)
پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا
قَالَ لَہُمۡ مُّوۡسٰی وَیۡلَکُمۡ لَا تَفۡتَرُوۡا عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا فَیُسۡحِتَکُمۡ بِعَذَابٍ ۚ وَ قَدۡ خَابَ مَنِ افۡتَرٰی
موسیٰ نے ان سے کہا: تم پر تباہی ہو!تم اللہ پر جھوٹ بہتان نہ باندھو وگرنہ اللہ تمہیں ایک عذاب سے نابود کرے گا اور جس نے بھی بہتان باندھا وہ نامراد رہا۔

اس بات پر جادوگروں کے درمیاں اختلاف ہوا۔
فَتَنَازَعُوۡۤا اَمۡرَہُمۡ بَیۡنَہُمۡ وَ اَسَرُّوا النَّجۡوٰی
پھر انہوں نے اپنے معاملے میں آپس میں اختلاف کیا اور (باہمی) مشورے کو خفیہ رکھا ۔ (سورہ طہ: 16-62)
حضرت موسیٰ (ع) کے مواعظ کے یا ان کے للکارنے کے نتیجے میں فرعونیوں کے درمیان جھگڑا شروع ہو گیا کہ موسیٰ (ع) کا مقابلہ کیا جائے یا نہیں
پھر میدان سچ گیا
اب انہوں نے رسیاں پھینکا، لوگوں کے انکھوں میں جادو کیا اور سانپ نظر آئے۔ یہ جادو تھا، جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ لیکن صحیح بخاری اور مسلم میں حضرت عایشہ سے روایت ہے کہ رسول خدا پر جادو ہوگیا تھا۔موسی پر جادو نہیں ہوسکتا ، جبکہ ہماری لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ پر جادو ہوگیا تھا۔ ہم ان روایات کو مسترد کرتے ہیں۔

کتاب: علي إمام بنص صفاته وخصائص ذاته (شیخ محسن علی نجفی دامت ظلہ)
حضرت امام علی علیہ السلام کی امامت اس کتاب میں ثابت کیا ہے۔ اس کتاب میں سارے حوالے موجود ہیں
اس کتاب میں رسول اللہ (ص)جو علی کی طرف نسبت دیتے تھے ۔ رسول اللہ (ص) صبح و شام حضرت علی علیہ السلام کی تربیت کے لئے جو کام کرتے تھے اور ان کے درمیان جو سیشن ہوتی تھی وہ سب اس میں مذکور ہیں۔
ہر روز فجر سے وقت علی علیہ السلام رسول اللہ (ص) اور رسول اللہ (ص) علی علیہ السلام کی زیارت کرتے تھے۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : کہ جب میں رسول اللہ (ص) سے سوال کرتا تھا تو جواب ملتا تھا جب کوئی سوال نہیں کرتا تھا پھر بھی عطا ہوتا تھا۔
رسول اللہ (ص) ایک ایسی شخصیت کی تربیت کررہے ہیں کی جس کی نظیر کائنات میں کوئی بھی نہیں ہے۔
مصائب حضرت عباس ع

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button